ایک چھ حرفی لفظ جو ایک سینٹی میٹر سے کم جگہ گھیرتا ہے لیکن اپنے تباہ کن اثرات کی وجہ سے پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ آکسیجن جس طرح پیغام صحت ہے و آلودگی اسی طرح پیغام موت ہے۔ کچرے کی غلاظت اور شہری ماحول میں گاڑیوں کے ڈیزل سے پیدا ہونے والے دھوئیں کی آمیزش سے پیدا شدہ خوفناک ماحولیاتی غلاظت کے جال کو ہم آلودگی سے تعبیر کرتے ہیں۔آلودگی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ (۱) شہری ماحولیاتی آلودگی (۲) سمندری آلودگی (۳) مضافات میں قائم کارخانوں سے پیدا شدہ آلودگی۔ ان تمام آلودگیوں کے نتیجے میں اوزون کی وہ قدرتی تہہ بھی تباہ و برباد ہو رہی ہے جو ہمارے ماحول کو پاک وصاف رکھنے کے لئے قدرت نے خلاء میں رکھی ہے۔ آلودگی کیسے پھیلتی ہے اور اس کا تدارک کس طرح ممکن ہے یہ آج کے صنعتی دور کا ایک نہایت اہم سوال ہے جس کے صحیح جواب پر ہم سب کی صحت کا اعضاء ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ سب ہے پہلے آلودگی ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتی ہے تو غالبا یہ اصلاح احوال کا پہلا قدم ہوگا ۔ ذہنی آلودگی میں سب سے اہم عصر ہماری لاپروائی کی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے ہم گلی سڑی اشیاء کو سر راہ پھینک دیتے ہیں اور جتنے عرصے وہ چیز وہاں پڑی رہتی اتنا ہی اس میں آلودگی کے جراثیم پرورش پاتے ہیں اس پر مستزا پان کی پچکاریاں اور سگریٹ کے مرغولے ہیں۔ یہی صورتحال ملاوٹ شدہ ڈیزل آئل اور دیگر مضر صحت اشیاء کے استعمال میں ہے۔ ہمارے منفی رویے سے آلودگی کو اس حد تک فروغ ہوا کہ آج پاکستان کے کئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہر تصور کئے جاتے ہیں۔ جن میں کراچی سرفہرست ہے۔کراچی کی سڑکوں پر دن رات لاکھوں گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں ان میں اکثریت ان گاڑیوں کی ہے جو قانون اور ضابطے کی حدود کو پامال کر کے دھواں دھار تیم کی آلودگی کو ہمہ وقت فروغ دے رہے ہیں۔ اس سے ڈپریشن سرورڈ آدھے سر کا درد بے خوابی بھلی سانس کی بیماریاں گلے آنکھوں اور معدہ کی بیماریاں پرورش پارہی ہیں۔ اس طرح آلودگی کے اس طوفان کی وجہ سے ہم اپنے شاندار مستقبل سے دور ہوتے جارہے ہیں کیونکہ بہار قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ۔ اللہ ذمہ
داران ان شہر کو اس کے تدارک میں ایک مشینری کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ (آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں