Translate

مضمون ، کہانیاں، واقعات، سیاحت، تفریح، مشورے اور ہر طرح کی معلومات اردو ٹائیگرز میں جانئے۔

ہفتہ، 22 مارچ، 2025

تشہیر

  تشہیر 


(۱) اخبارات ( Newspapers) : دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں اور دنیا کی کوئی مہذب زبان ایسی نہیں جس میں اخبارات نہ شائع ہوتے ہوں پر نٹنگ پریس کی ایجاد اور نیوز پرنٹ کا غذ کی کثیر پیمانے پر پیداوار نے یہ ممکن بنا دیا کہ ہر زبان میں اور ہر علاقے میں اخبارات کی روزانہ طباعت کی جائے اور لوگوں کو روزانہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی خبریں تازہ بہ تازہ پہنچائی جائیں اخبارات شائع کرنے والے اخبارات کی طباعت اور ڈسٹری بیوشن کے لئے کافی اخراجات کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا مطمع نظر یہی ہوتا ہے کہ اس کام سے انہیں مناسب فائدہ بھی حاصل ہو لیکن صرف اخبارات کے شائع کرنے اور ان کی فروخت سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو تا اس لئے اخبارات میں اشتہارات شائع کر کے اخباری ادارے مناسب ذریعہ آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ وہ اخبارات میں مختلف کالم اور تصاویر رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ ) شائع کرتے ہیں۔ صنعتکار اور فلمساز ادارہ خدمات مثلاً کنسٹرکشن کمپنی اور دوا ساز ادارے یا ضرورت جائداد ضرورت رشتہ گاڑیاں برائے فروخت ، تعلیمی ادارے وغیرہ وغیرہ کے لئے کالم مختص ہوتے ہیں اور ان میں مشتہر حضرات اپنی اپنی اشیاء و خدمات پیش کرتے ہیں اکثر کمپنیاں اور ادارے جنہیں قابل افراد کی ضرورت ہوتی ہے خالی آسامیوں کے لئے اخبارات میں مختصر یا بڑے اشتہار شائع کرتے ہیں جیسے ضرورت ہے وغیرہ عنوانات کے تحت سب ہی اخباروں میں یہ اشتہار موجود ہوتے ہیں۔ بے روزگار لوگوں کی دنیا میں اکثریت ہو گئی ہے وہ بھو کے شیروں کی طرح ان اشتہارات پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر ان کے لئے درخواستیں روانہ کرتے ہیں لیکن یہ کام لاٹری میں حصہ لینے کے مترادف ہے اور صرف ایک ہی درخواست پر کسی کو ملازمت نہیں مل جاتی اس لئے مسلسل ضرورت روزگار کے اشتہار پڑھنے کے لئے روزانہ ہے اخبارات سینما گھروں میں لکھی ہوئی فلموں کے با تصویر اشتہارات شائع کرتے ہیں تاکہ روز گار لوگ اخبارات خریدتے رہتے ہیں۔ باکس آفس کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو فلموں کے دیکھنے والے شائقین ان اشتہارات کو غور سے پڑھتے ہیں اسی طرح عطائی دواخانے عامل اور پیٹینٹ ادویات کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں جنہیں اہل غرض لوگ پڑھتے ہیں جن سے مشتہر لوگوں کے کاروبار چمکتے ہیں اور انہیں اپنی اشیاء اور خدمات کی قیمت وصول ہو جاتی ہے اور ان کا اشیاء و خدمات کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے مشتہر کے کاروبار میں تیزی سے ترقی ہوتی ہے ۔ اخبارات سب سے ستے ذرائع تشیر میں شمار ہوتے ہیں۔ اخبارات میں لچک پذیری بھی ممکن ہے کیونکہ پیغام کو شائع ہونے سے پہلے تبدیل کرنے کی گنجائش بھی ہوتی ہے اور اسے شائع ہونے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔  

(۲) ریڈیو (Radio) :- ریڈیو پر تشہیر ٹیلیویژن کے مقابلے میں کم خرچ لیکن بالا نشین ثابت ہوتی ہے ملک بھر میں ہر جگہ ٹیلیویژن کی نشریات کے سننے اور دیکھنے کی سہولت حاصل نہیں ہوتی لیکن ریڈیو ہر جگہ سنا جا سکتا ہے اور ٹرانزسٹر تو سیل کی مدد سے بھی چلائے جاسکتے ہیں اور کسی بھی جگہ بیٹھ کرنے جاسکتے ہیں اس لئے ان کی ہر دل عزیزی اور افادیت بہت زیادہ سے ریڈیو پر ہمہ اقسام کے اشتہارات تشیر کئے جاتے ہیں اور اسے عوام الناس کی بڑی تعداد خاص کر دیہاتی لوگ کرپان تر دور طبقه و غیره کان کن تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے والے لوگ بھی سنتے ہیں۔ ایسے کاروباری حضرات اور تاجر جو دور افتادہ مقامات اور گاؤں گاؤں اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں وہ ریڈیو پر اشتہار نشر کرواتے ہیں اس کا منفعت بخش پہلو یہ ہے کہ اے غریب طبقہ زیادہ سنتا ہے سمعی طریقہ سے بعض میوزیکل ترانوں وغیرہ کو استعمال کر کے گاہکوں کی توجہ مشتہر اشیاء کی طرف مبذول کروائی جاسکتی ہے۔  ریڈیو ٹرانزسٹرز چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں عام طور پر استعمال کئے جارہے ہیں جو انتہائی سنتے ہیں اور انہیں سیل کی مدد سے چلایا جاتا ہے یعنی پر اس جگہ جہاں ابھی تک عمل : پہنچائی گئی ہو ۔ریڈیو کار آمد ثابت ہوتا ہے اس طرح یہ کم خرچ بھی ہے اور سہولت حقوق بھی اور قریبی ریڈیو اسٹیشن سے ان پر مختلف پروگرام آسانی سے سنے جاسکتے ہیں۔ اس ذریعہ ہے یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں اقسام کے لوگ متوجہ کئے جاسکتے ہیں۔ تعلیم

  

حالیہ دور میں ٹیلیویژن کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے اور بڑی حد تک ریڈیو کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اور تیسری دنیا کے سارے بڑے شہروں میں ٹیلیویژن نے ریڈیو کی جگہ لے لی ہے۔ ریڈیو نشریات میں ایک قباحت یہ ہے کہ اگر کوئی دلچسپ یا مفید پروگرام جب اس پر نشر کیا جاتا ہے تو پھر یہ عدم کرنا سخت مشکل ہو جاتا ہے کہ اس پروگرام کو لوگ پسند بھی کرتے ہیں یا نہیں اسی لئے خاص تمامی پروگراموں کو ریڈیو پر بار بار دھرایا جاتا ہے۔  عام طور پر ریڈیو پر لوگ مقامی پروگرام سنا پسند کرتے ہیں اس میں جغرافیائی انتخاب محدود ہوتا ہے نیز یہ کہ اس ذریعہ میں دلچسپی کا انتخاب معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ مختلف قسم کے لوگ مختلف نوعیت کے پروگرام سننا پسند کرتے ہیں۔  

(۳) رسائل (Magazine) : - ہفتہ وار 'پندرہ روزہ یا ماہنامہ رسالے بھی تشہیر میں بڑی مدد دیتے ہیں یہ رسائل الگ الگ قسم کے ذوق رکھنے والے لوگوں کے لئے ہوتے ہیں کچھ اقتصادی نوعیت کے رسالے ہوتے ہیں کچھ فیشن ' پکوان وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں یعنی عورتوں کے لئے ان میں دلچسپی کا زیادہ مواد ہوتا ہے۔ غرض جس قسم کے لوگوں کے لئے جو موزوں رسالہ ہوتا ہے اس کی مناسبت سے ان میں اشتہارات شائع کرائے جاتے ہیں تاکہ صحیح ذوق رکھنے والے لوگوں تک مصنوعات کے بارے میں معلومات فراہم ہو سکیں اور اس طرح گاہوں کو متوجہ کیا جاسکے۔ رسائل میں یہ خرابی ہے کہ یہ ہر قسم کے لوگوں کے لئے موزوں نہیں ہوتے اور ان میں کوئی ایک پذیری نہیں پائی جاتی غرض پیغام کی نوعیت کے لحاظ سے اشتہارات مقبول عام نہیں ہوتے بلکہ صرف مخصوص طبقہ کی توجہ اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ (۴) ٹیلی وژن (Television) : - ریڈیو ٹیکنالوجی کی یہ ایک مایہ ناز اور مقبول عام ایجاد ہے۔ اب یہ زبر دست تشہیر کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ اگر چہ اس پر خرچ زیادہ آتا ہے لیکن ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے اشتہارات اور ماڈل لڑکے لڑکیوں کی شکلیں ٹی وی پر دیکھ کر لوگ اکٹر اشیاء کی خریداری میں غیر معمولی دلچسپی دکھاتے ہیں اور اس طرح کئی صنعتی مصنوعات گاہکوں میں باآسانی متعارف ہو جاتی ہیں خاص کر رنگین ٹی وی پر دئیے ہوئے اشتہارات کے مشتہر لوگوں کو خاصا کاروباری فائدہ ہو رہا ہے۔ غرض مہنگا سی یہ بہترین ذریعہ تشہیر ہے لیکن

ابھی تک ترقی پذیر ملکوں میں ٹیلی وژن صرف شہروں اور بڑے بڑے قصبوں میں متعارف ہوا ہے اس کی قیمت بھی ریڈیو سے بہت زیادہ ہے اس لئے ابھی تک یہ غریب ملکوں میں شیر کے لئے زیادہ موزوں نہیں ہے ۔ ریڈیوٹی وی پر بھی مسلسل اشتہاروں کا اعادہ کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ناظریں ان اشتہارات کو دیکھ سکیں اور ان میں دلچسپی لیں ممکن ہے اکیسویں صدی میں زیادہ سے زیادہ ٹی وی اسٹیشنوں کا قیام عمل میں آئے گا اور ٹیلی ویژن سیٹ بھی قدرے ستے  

ہو جائیں گے اور پھر یہ بہترین ذریعہ تشہیر ثابت ہو سکیں گے

(۵) بیرونی تشہیر (Out-Door Advertising) : بیرونی تشہیر سے مراد ایسی تشہیر ہے جس میں کوئی مخصوص مصنوعاتی شئے یا پیداواری چیز اس وقت متعارف کی جاتی ہے جبکہ مشتہر گھر سے باہر نکلیں ۔ تشہیر کا یہ بہت پرانا طریقہ ہے اس کے ذریعہ لوگوں کو شائع شدہ پوسٹروں، تحریری پوسٹروں یا پمفلٹ کی شکل میں پیغام فراہم کیا جاتا ہے اس کے علاوہ بل یور ڈاور نیون سائن بھی استعمال کئے جاتے ہیں لیکن یہ اس قسم کا مواد صرف پڑھے لکھے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے۔ ان پڑھ لوگ اس سے مشتہر کے پیغام کو نہیں سمجھتے۔ وہ لوگ جو پیدل چلتے ہیں یا سوں، منی بسوں کوچوں اور رکشاؤں اور ٹیکسیوں میں سفر کرتے ہیں وہ اکثر ایسے اشتہاری ذرائع کو پڑھتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ دل کو لبھانے والی تصاویر بھی اس غرض سے استعمال کی جاتی ہیں جو اکثر اشیائے صرف مثلاً ٹائلٹ صائن اور دوسری اشیائے صرف کی پیکنوں اور ڈیوں پر بنائی جاتی ہیں جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہیں۔ ایسے اشتہاروں میں چٹ پٹی اور پر اثر کرنے والی عبارتیں لکھی جاتی ہیں لیکن عبارت  مختصر ہونی چاہئے۔ پاکستان میں اور اس طرح پر صغیر کے دوسرے ممالک بھارت سری لنکا اور جنگلہ دیش اور خیال میں بہت سارے عوام الناس بیرونی تشہیر سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ مشتہر کا ایک مقبول طریقہ کار ہے البتہ اس میں دلچسپ خاکے عمدہ اور خوبصورت تصاویر لوگوں کی دلچسپی - کا باعث ہتے ہیں۔ بیرونی تشہیر جغرافیہ کے اعتبار سے وسیع پیمانہ پر کی جاتی ہے اس طریقہ سے مشتہر اپنی مصنوعات اور تجارتی اشیاء کو متعارف کراتا ہے۔ جہاں اسے متوقع گاہوں کی ایک لا بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ جہاں تک دلچسپی پیدا کرنے کا سوال ہے تو اس طریقہ میں مقام کا ارا انتخاب بھی کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جہاں پوسٹر لگانا ہو یا بل بورڈ اور نیون سائن نصب کرنا ہوں

   اس سلسلہ میں وہ جگہ اور راستے منتخب کرتے ہیں جہاں سے کثیر تعداد میں لوگ گذرتے ہوں اور کسی خاص شئے یا خدمت میں ان کو دلچپسی ہو جیسے سینما گھروں کے قریب کھی تصاویر والے پوسٹر مسجدوں کے قریب قرآنی آیات اور کیلی گرافی سے بنائے ہوئے پوسٹر اور پمفلٹ بہت مقبول ثابت ہوتے ہیں۔ بڑے بازاروں میں پھڑ کیلئے نیون سائن رنگ برنگے نئے نئے نقش و نگار کی شکل میں نصب کر کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے کی  کوشش کی جاتی ہے اس طریقے میں حسب ضرورت لچک بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ (1) سینما کے ذریعہ شیر (Cinema Advertisement) :- اکثر نوجوان طبقہ سینما بینی کا شوقین ہوتا ہے اور اچھے اچھے کپڑوں نئے نئے ڈیزائن اور فیشن والے ملبوسات اور اچھی قسم کے پر فیومز بہترین ذائقہ دار خو شبو والی چائے اچھے اور دانتوں کو طاقت مٹنے والے ٹوتھ پیسٹ وغیرہ کے سینما گھروں میں سلائیڈ دیکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ سلائیڈ اور دستاویزی فلموں کی نمائش کر کے سینما گھروں کے ذریعہ سینما ہیوں میں اپنی اشیاء کا کامیاب تعارف کرایا جا سکتا ہے۔ یہ جغرافیائی انتخاب سے ہٹ کر پلٹی یا تشیر کا طریقہ ہے اس تم کی تشہیر سلائیڈ کم خرچ ہوتے ہیں جنہیں حسب ضرورت تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ دستاویزی فلمیں بنانے میں کافی روپیہ خرچ ہوتا ہے اور انہیں آسانی سے حسب ضرورت بدلا نہیں جا سکتا اس لئے دستاویزی فلمیں بنا کر اشیاء کی تشہیر تیسری دنیا کے ممالک میں بہت کم کی  

(۷) راست خط و کتابت Direct Mail) :- اس ذریعہ تشہیر میں سیلز جاتی ہے۔ پروموشن لیٹرز ، سیلز لیٹر ز سر کو لرز پمفلٹ ڈائریاں، کیلنڈر کیٹلاگ وغیرہ متوقع خورده فروشوں اور صارفین کے پتوں پر ڈاک کے ذریعہ بھیجے جاتے ہیں۔ یہ ذرا مہنگا طریقہ ہے ں کیونکہ اس قسم کی اشتہار بازی میں بڑی تعداد میں کاغذ اور طباعت کا خرچ ضائع ہو جاتا ہے لیکن . جغرافیائی انتخاب کے مد نظر یہ ایک کامیاب طریقہ تشہیر ہے پیغامات کو آسانی سے ترسیل کیا ی جاسکتا ہے۔ اس میں پیغامات کی عبارت تصاویر اور خاکے وغیرہ حسب ضرورت و قتافوقتا تبدیل  

کئے جاسکتے ہیں

بسوں، ٹرام کاروں اور ریل گاڑیوں کو بھی تشہیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ذرائع ۱ (۸) ذرائع نقل و حمل اور تشہیر نقل و حمل میں کارڈا چھوٹے چھوٹے بورڈ یا تصاویر کے ذریعے مسافروں کو پیغام دیا جاتا ہے ۔ چونکہ اس طریقہ کے ذریعہ تشیر زیادہ مہنگی نہیں ہوتی لہذا اسے چھوٹے تاجر بھی اختیار کر سکتے ان طریقہ سے ان علاقوں اور لوگوں تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے جو ان ذرائع سے حفتر ہوتے ہیں۔ کہیں اور ریل گاڑیاں زیادہ وسیع علاقے میں گھومتی ہیں اس لئے ان میں جاذب نظر اور مخصر پمفلٹ وغیرہ چسپاں کر کے مناسب تشیر کی جاسکتی ہے دلچپسی کا انتخاب بھی اس  

طریقے کے تحت سے علاقے میں کیا جا سکتا ہے۔

(۹) دوسرے ذرائع Other Media) : - او پر بیان کئے ہوئے مختلف ذرائع کے لاوہ جسے بے معنی دی اور کاروبار میں تری ہورہی ہے نت نئے طریقے تشہیر کے عام ہوتے جارہے ہیں بڑے کاروباری ادارے اپنے گاہکوں کی پرکشش اقسام کی اشیاء نمونے کے طور پر بھیجتے ہیں اس کے علاوہ مخصوص تحائف پیکٹ اور ڈائریکٹریاں وغیرہ بھی بھیجتے ہیں ان اشیاء پر یا کار باشتر کی اشیاء کے نام کندہ یا طباعت شدہ لیبل لگا کر مصنوعات لمبے عرصے تک کے لئے محفوظ ر کھی جاتی ہیں۔ تشہیر کا یہ جدید ترین طریقہ ہے جو موزوں بھی ہے اور مؤثر بھی ہے گاہوں کے ذہنوں میں ایسے تحفوں سے مشتہر اشیاء و خدمات زیادہ دیر تک میں محفوظ رہتی ہیں ہمارے ملک میں پی آئی اے (PIA) نے اس قسم کی تشہیر کو کامیابی سے استعمال کیا ہے اور اس نے کیلنڈر ڈائریاں بریف کیس ، تھیلے، سگریٹ لائٹر اور اسی قسم کو متعدد اشیاء تحفوں کی شکل میں ہوائی سفر کرنے والے مسافروں اور اپنے عملے کے لوگوں میں وقتا فوقتا مفت تقسیم کی ہیں جس کو لوگ بہت پسند کرتے ہیں اور اس طرح پی آئی اے نے اپنی خدمات کی کامیاب تشیر کی ہے۔ حبیب بینک نے خوبصورت ڈائریاں ہر سال اپنے کھاتے داروں میں تقسیم کی ہیں اور مختلف کاروباری ادارے اچھے اور خوبصورت کیلنڈر ہر سال متوقع گاہکوں  

یں مفت تقسیم کے  

جمعہ، 21 مارچ، 2025

تجارت کی وسعت

 تجارت کی وسعت  


 جب سے انسانی تہذیبوں کی ابتداء ہوئی تجارت بھی اس وقت سے شروع ہوئی۔ پہلے بارٹر سسٹم رائج تھا اور اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ عمل میں آتا تھا اور پھر زر کی ایجاد کے بعد زر کے ذریعہ تجارت کا عمل خوش اسلوبی سے انجام دیا جانے لگا کسی بھی قوم کی اقتصادی ترقی کا دارو مدار اس کی تجارتی ترقی پر منحصر ہوتا ہے۔ کوئی بھی ملک صنعتی اعتبار سے اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ تجارتی میدان میں ترقی نہ کرے دنیا کے سارے ممالک میں جو اشیاء صرف اور اشیائے تجارت پیدا ہوتے ہیں وہ ساری دنیا کے ممالک کی منڈیوں میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر ملک اپنی آب و ہوا اور قدرتی وسائل اور انسانی وسائل اور تکنیکی معلومات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف قسم کی اشیائے صنعت اور اجناس پیدا کرتا ہے جو اس کی اپنی داخلی ضروریات سے بہت زیادہ ہوتی ہیں تو وہ ان اشیاء کو دوسرے ممالک کو برآمد کرتا ہے جہاں یہ اشیاء پیدا نہیں ہو تیں یا کم پیدا ہوتی ہیں اور ان برآمدات سے غیر ملکی کرنسی یا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے اس سے یہ ملک ایسی اشیاء اور اجناس وغیرہ خریدتا ہے جو اس ملک میں   اس طرح ایک بین الا قوامی تجارت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس سے دنیا کے ہمارے ممالک میں رہنے والی اقوام کی ساری ضروریات زندگی کی تعمیل ہوتی ہے مثال کے طور پر جب ہم بازار میں جاتے ہیں تو وہاں ہمیں ہر ملک کی بنی ہوئی اشیاء دکانوں میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً پاکستان میں جاپان کی بنی ہوئی موٹر کار میں لاریاں ، ٹرک سوزوکی سو کنٹرر لینڈ کی گھڑیاں اور الیکٹر ایک آلات ، امریکہ کی بنی ہوئی مشینیں، چین میں بنی ہوئی مختلف صنعتی اشیاء ٹی وی ریفریجریٹر اور آسٹریلیا سے درآمد شدہ گیہوں اس کا آنا وغیرہ وغیرہ مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوتے ہیں یہ صرف اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ آج تجارت وسیع سے وسیع تر ہو گئی ہے اور بین الا قوامی منڈیوں میں تجارت پورے زور و شور سے جاری ہے اور اب صرف ضرورت ہے سرمایہ کی اور محتاجی ہے زر مبادلہ کی جس کی وجہ سے تیسری دنیا کے لوگ اپنی ضروریات زندگی بھر پور طریقے سے نہیں خرید سکتے اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی ان کی درآمدات کے لئے درکار رقومات سے بہت کم ہوتی ہیں دنیا میں صرف چند ہی ایسے متمول ملک ہیں جو اپنی تمام ضروریات میں خود کفیل ہیں لیکن تمام ہی ممالک تقریباً اشیاء و خدمات دوسرے ممالک سے خریدتے ہیں اور اپنی زائد پیداوار میں دوسرے ملکوں کو بھیجتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ محض عالمی تجارت کی وسعت کا نتیجہ ہے کہ ہم ان چیزوں سے بھی مستفید ہوتے ہیں جو ہمارے ممالک میں پیدا ہی نہیں ہو تیں۔ اگر تحقیقی نظر سے دیکھا جائے تو بات صاف نظر آتی ہے کہ مغربی ممالک اور مشرقی ممالک میں جاپان، چین، تائیوان کوریا وغیرہ بہت ساری اشیاء فاضل مقدار میں پیدا کر کے دوسرے ایشیائی افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔ جن سے وہاں کے لوگوں کی ضروریات زندگی کی بڑی حد تک تکمیل ہو جاتی ہے۔ تجارت میں ترقی اور وسعت ی وجہ سے تھوک فروشی، خوردہ فروشی کی خدمات وجود میں آگئی ہیں اس کے علاوہ بینکاری نیمہ اری نقل و حمل اور تشہیر کاری کے مختلف ادارے معاون تجارت کی حیثیت سے اپنے فرائض نجام دیتے ہیں۔ بینکاری کے ذریعہ ضرورت مند پیدا کاروں اور تاجروں کو قرضے حاصل ہوتے یں - ہمہ کار کمپنیاں مختلف خطرات کی ضمانت دیتی ہیں جس میں نقل و حمل کے دور ان اشیائے ہارت کے تلف ہونے پر ان کے معاوضہ ادا کرنے کا انتظام ہوتا ہے۔ سڑکوں پر دیو قامت بڑی بڑی مال بردار لاریاں ، ٹرک اور مال بردار ریل گاڑیاں اندرون ملک اشیاء تجارت کے نقل و حمل کو ممکن بناتے ہیں اور بحری مال بردار جہاز آئل ٹینکر وغیرہ سمندری راستے سے اشیائے تجارت کو ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچاتے ہیں اور یہ کام  دن رات جاری وساری ہے اور دنیا کے لوگوں کی ضروریات زندگی کی رسد بر قرار ہے۔ اندرون ملک تجارت کے لئے دلالوں، ایجنٹوں اور درمیانہ افراد کی خدمات میسر ہیں بیرونی تجارت کے لئے کلیئرنگ فارورڈنگ ایجنٹوں کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ بحری جہاز راں کمپنیاں اور ہوائی کمپنیاں بھی نقل و حمل کے معاملہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں غرض تجارت وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے اور تجارتی امور میں مسلسل ارتقاء کا عمل جاری ہے اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ اقوام عالم کی ترقی کار از ان ممالک کی تجارتی صلاحیتوں کی ترقی پر منحصر ہے کہ جو ملک جس قدر تجارت میں ترقی یافتہ ہے وہ ملک اسی قدر مالی اور معاشی اعتبار سے طاقتور ہے اور اس ملک کے رہنے والے خوش حال ہیں۔ یورپی اقوام امریکہ اور جاپان وغیرہ تجارت میں ترقی کر کے متمول ملک من گئے ہیں اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک بھی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ صنعتی ترقی کر کے اپنی تجارت کو فروغ دیں اور خوش حالی حاصل کریں۔ فن تجارت کو کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر مطلوبہ سرمایہ تشکیل دیا جا سکے اور لوگ سخت محنت سے کام کریں۔ صنعتی تعلیم اور معلومات عام ہو جائیں تو قوموں کی تقدیر میں بدل سکتی ہیں بشرط یہ کہ توازن ادائیگی اس ملک کے حق میں د یعنی اس کی برآمدات سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ اس کی درآمدات کے لئے درکار زر مبادلہ  سے بہت ذیادہ ہو۔

تجارت کے بنیادی جز

تجارت کے بنیادی جز

خریدوفروخت کے ذریعے ایک فریق سے اشیاء خریدتے ہیں اور دوسرے فریق کو فروخت کرتے ہیں - خرید و فروخت کے انہی افعال کو عام طور پر انگریزی کے لفظ ٹریڈ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا کام دوہری نوعیت کا حامل ہے اس کا ایک پہلو اشیاء کی خرید ہے اور دوسرا پہلو اشیاء کی فروخت ہے۔ لیکن آج کل ٹریڈ میں بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے اور پیداکاروں اور صارفین کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں اور ٹریڈ ایک پیچیدہ نوعیت کا حامل ہو گیا ہے۔ ٹریڈ کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ اشیاء و خدمات کو سب سے پہلے پیدا کاروں سے خریدا جائے کیونکہ اسی صورت میں ان کی فروخت ممکن ہے ۔ اب یہ اشیاء و خدمات یا تو مقامی طور پر دستیاب ہوتی ہیں یا ملک کے دوسرے حصوں سے یا بیرونی ممالک سے منگوانی پڑتی ہیں۔ آج کل پیدا کار بعض اجناس اور اشیاء کی پیداوار میں تخصیص (Specialization) کے اصول پر عمل کرتے ہیں اور صرف ایسی اشیاء کسی مقام یا ملک میں پیدا کی جاتی ہیں جن کی تجارت سے زیادہ سے زیادہ مالی منفعت اور زر مبادلہ کمایا جا سکے تاکہ جو آمدنی اس سے ہو یعنی زر مبادلہ حاصل ہو اس کے ذریعہ اپنے ملکی اشیاء ضرورت باہر ملکوں سے خریدی جائیں اس طرح بین الا قوامی تجارت یعنی درآمدات و برآمدات پر مبنی تجارت عام ہو چکی ہے اور اب ٹریڈ کی وسعت مقامی سے بڑھ کر ملکی سطح اور ملکی سطح سے ترقی کر کے بین الا قوامی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں پیدا کار اشیاء کی متوقع طلب کو پیشگی مد نظر رکھتے ہوئے ان کی اشیاء کی ساخت معیار اور مقدار طلب کا تخمینہ لگاتا ہے اور ان اشیاء کو مقامی ، ملکی اور بین الا قوامی منڈیوں سے خریدتا ہے اس طرح خرید و فروخت یا ٹریڈ ایک بہت ہی ضمنی قسم کے افعال کا مجموعہ بن جاتا ہے اور ایک پیچیدہ کام کی شکل اختیار کر لیتا ہے اب ٹریڈ چھوٹی اکائیوں میں نہیں ہوتا ۔ بڑی بڑی فرموں اور تجارتی اداروں میں کئی ضمنی شعبہ جات فعال ہو جاتے ہیں اور پھر اس وسیع ٹریڈ کو ماہرین تجارت بازار کاری کی وسعتوں میں نفوذ کر دیتے ہیں۔ اس لئے ہم اس اصطلاح کے مفہوم کو سمیٹتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹریڈ اشیاء کو پیداکاروں سے خرید کر صارفین تک پہنچانے کا فعل انجام دیتا ہے جس سے اشیاء میں مقبوضاتی افادہ جنم لیتا ہے۔ 

نقل و حمل

 چونکہ تجارت مقامی حدود سے باہر ہر نکل کر ملکی اور غیر ملکی حدود تک وسیع ہو گئی ہے اس لے اشیاء خرید کو دور دور سے پیدا کاروں سے خرید کر انہیں بازاروں میں پہنچانا پڑتا ہے تاکہ وہاں سے وہ صارفین تک پہنچ سکیں۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اندرون ملک، ٹرک اور ریلوں کے ذریعہ ان اشیاء کے نقل و حمل کا مناسب انتظام کیا جائے اور بیرونی ممالک سے بحری جہازوں کے ذریعہ ان اشیاء کو درآمد کیا جائے اور جو اشیاء مقامی طور پر فاضل ہوں ان کو مقامی سے ملکی بازاروں اور بیرونی ممالک کی  منڈیوں تک نقل و حمل کے ذرائع کا استعمال کر کے ان کی ترسیل کر دی جائے۔ اسی لئے آج کی دنیا میں ہر ملک میں سامان تجارت کے نقل و حمل کا معقول انتظام کیا چا رہا ہے یا اس سلسلہ میں بین الا قوامی ذرائع ( جہاز راں کمپنیوں) کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں نقل و حمل صرف بہت ہی قیمتی اشیاء اور جان جانے والی دواؤں وغیرہ یا قدرتی آفات میں امدادی کاموں کے لئے ہوائی جہازوں کے ذریعہ بھی انجام دیا جاتا ہے لیکن یہ بہت ہی زیادہ مہنگا ذریعہ نقل و حمل ہے مشینیں اور اناج وغیرہ عام طور پر بحری جہازوں سے ایک ملک سے دوسرے ملکوں تک لے جائی جاتی ہیں اور اندرون ملک ان کے نقل و حمل کے لئے ٹرک لاریاں اسٹیشن ویگن اور مال بردار ٹر ینہیں استعمال کی جاتی ہیں۔  

مالیات

 کاروبار کے پھیلاؤ کے لئے سرمایہ کی مناسب مقدار میں دستیابی ضروری ہے ۔ ٹریڈ میں اضافہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب کہ مناسب مقدار میں سرمایہ فراہم کرنے والے مثلا ہینک اور مالیاتی ادارے موجود ہوں اشیاء کی پیداکاروں سے خریداری کے بعد ان کا صارفین کے ہاتھوں تک پہنچ جانا ایک خاصی مدت یا وقت طلب کام ہے جو چیزیں خریدی جاتی ہیں وہ اس عبوری مدت میں تاجر کے پاس رکھی رہتی ہیں اور اس طرح کے سرمایہ کی گردش کی رہتی ہے جس کو عام زبان میں سرمایہ کا بلاک ہو جانا کہتے ہیں۔ اس طرح وہ تمام تجارت پیشہ لوگ جو خریداری کا عمل کرتے ہیں ان کا نقد سرمایہ اشیائے تجارت کی شکل میں ان کی ذخیرہ گاہوں اور دکانوں میں جمع ہو جاتا ہے اور چونکہ ایسا قریب قریب سب ہی تاجروں کے ساتھ مسئلہ پیش آتا ہے اس لئے بازاری ڈھانچہ میں مالیاتی مسائل پیدا ہونا ایک لازمی امر ہوتا ہے اس سے بازار کاری میں ادھار خرید و فروخت ، بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ جات کا حصول کا طریقہ چل نکلتا ہے۔ جب خوردہ فروش اشیاء صرف صارفین کو ادھار فروخت کرتا ہے تو لازمی طور پر وہ تھوک فروش سے مال ادھار لیتا ہے اور تھوک فروش پیدا کاروں (صنعتوں اور کسانوں) سے اشیاء و خدمات ادھار حاصل کرتا ہے اور اس سلسلہ میں بیھوں اور مالی اداروں اور دوسرے ذرائع سے سرمایہ حاصل کرتا ہے یا پھر صنعتکار اور پیدا کار جب تھوک فروشوں کو ادھار اجناس اور اشیاء فراہم کرتے ہیں تو انہیں بھی بینکوں وغیرہ سے قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں اس طرح تجارت کو رواں دواں رکھنے کے لئے ہر مرحلہ پر سرمایہ کی کمی محسوس ہوتی رہتی ہے اور سرمایہ کا حصول اور قلیل و طویل المیعادی قرض حاصل کئے جاتے ہیں۔ عموما سارے بڑے پیمانے پر چلنے والے تجارتی کاروبار کے لئے فروخت کار بغیر قرضے لئے کام نہیں چلا سکتے اور بڑی بڑی صنعتیں اور کاروبار قرض پر چلائے جاتے ہیں۔

اولمپک کھیل

اولمپک کھیل


ہر چند سالوں میں ، ہزاروں بہترین ایتھلیٹسن نے اولمپک کھیلوں میں مقابلہ کرنے کے لئے مل کر جمع کیا۔ وہ دنیا کے سیکڑوں ممالک سے آتے ہیں ، دنیا کے حصوں سے ، اور کھیلوں کی لمبائی کے لئے دنیا امن اور اتحاد کے جشن میں مشترکہ گراؤنڈ پر اکٹھی ہوتی ہے۔ لیکن اولمپکس کیا ہیں؟ اولمپک کا پہلا کھیل تین ہزار سال قبل 776 قبل مسیح میں یونان میں ہوا تھا۔ وہ ایتھلیٹک مقابلوں تھے جو دیوتاؤں کے بادشاہ ، اعزاز زیوس میں منعقد ہوئے تھے۔ یہ کھیل ہر چار سال بعد ہوتا تھا ، اور کھیلوں کے دوران اولمپک ٹرس ہوتا تھا جب وار اور لڑائیوں کی اجازت نہیں ہوتی تھی تاکہ مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کھیلوں میں محفوظ طریقے سے سفر کرسکیں۔ اوریگینلی طور پر ، اولمپک کھیلوں میں صرف ون وینٹ تھا - ایک مختصر دوڑ میں ایک مختصر دوڑ - لیکن اس میں مزید واقعات شامل کیے گئے تھے جن میں بوکسنگ ، ریسلنگ ، لانگ جمپ ، پھینکنے والی ، لمبی چھلانگ بھی شامل تھی۔ قدیم اولمپکس میں ، صرف مردوں کو مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ فاتحین کو چادر یا تاج کے زیتون کی شاخوں سے نوازا گیا ، جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا ، اور اکثر رقم اور دیگر انعامات بھی ملتے تھے۔ قدیم اولمپکس کے آخری کھیل 393 ء میں ویرے ہوئے تھے ، جس نے 6301،000 سال سے زیادہ کی روایت کا خاتمہ کیا تھا۔ یہ تقریبا 1500 سال بعد تک نہیں تھا جب تک کہ اولمپکس کو ایک بار پھر اولمپکس کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 1894 سے زیادہ سال تک یورپ میں مختلف مقامات پر واقع قدیم اولمپکس کے بعد ، 1894 سے زیادہ عرصہ تک ، اس وقت تک جاری نہیں تھا۔ 1896 میں یونان کے ایتھنز ، یونان میں آئی او سی ٹیک پلیس کے زیر اہتمام پہلے کھیلوں میں ، اور اس میں 14 ممالک کے 241 ایتھلیٹس شامل تھے۔ اس چھوٹی سی شروعات کے بعد ، بہت سی چیزوں میں بہت سی چیزیں ہیں۔ خواتین نے پہلی بار اولمپکس میں 1900 میں حصہ لیا تھا۔ اولمپکس کو اسکیئنگ اور فگر ایسکیٹنگ ، اور 280 کے اعداد و شمار جیسے سرمائی زیتون ، اور 280 کے اعداد و شمار میں شامل کیا گیا تھا۔ اب پیرا اولمپکس کے نام سے جانا جاتا ہے ، معذور افراد کے ساتھ کھلاڑیوں کے لئے منعقد ہونا شروع ہوا۔ اتنی دیر پہلے ، نوجوانوں کے کھیل متعارف کروائے گئے تھے ، جس کی وجہ سے 14 سے 18 سال کی عمر کے ایتھلیٹوں کو مقابلہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ ٹوڈے ، اولمپک کھیلوں میں ہر دوہریوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جس میں موسم گرما کے اولمپکس اور موسم سرما کے اولمپکس کے درمیان ہوتا ہے ، تاکہ ہر موسم گرما کے زیتون کے کھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ صرف کچھ اختلافات ہیں جو قدیم اولمپکس اور جدید اولمپک کھیلوں میں سے کچھ اختلافات ہیں۔ جب قدیم اولمپکس ہر بار اس جگہ پر رکھے جاتے تھے تو ، جدید اولمپکس دنیا کے مختلف شہروں میں ہوتے ہیں۔ قدیم اولمپکس میں فاتحین کو ایوارڈ دینے والی شاخیں تھیں ، لیکن جدید اولمپکس میں وکٹرز کو تمغے ملتے ہیں۔ تیسرا پلیس نے کانسی کی کامیابی حاصل کی ، دوسری جگہ ونسلیور ، اور پہلی جگہ کو سونے کا تمغہ مل جاتا ہے۔ سونے کے تمغے دراصل سالڈ گولڈ سے نہیں بنے ہیں ، تاہم: وہ سونے کی ایک پتلی پرت سے ڈھکے ہوئے چاندی سے بنے ہیں۔ اولمپکس کی ایک اور اہم علامت اولمپک بجتی ہے: نیلے ، پیلے ، سیاہ ، سبز ، سبز اور سرخ رنگ کے پس منظر کے پانچ باہم گھنٹی بجتی ہے۔ حلقوں کے رنگوں کا انتخاب کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت دنیا میں ہر پرچم کا کم از کم ان رنگوں میں سے ایک تھا۔ پانچ حلقوں میں سے ہر ایک دنیا کے ایک براعظموں میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہے: شمالی اینڈ ساؤتھ امریکہ کو ایک کے ساتھ ساتھ ، ایشیاء ، یورپ اور آسٹریلیا کے ساتھ ایک شمار کیا جاتا ہے۔ انگوٹھیوں کے بعد ، اولمپکس کا ایک سب سے اہم سائبولس اولمپک شعلہ ہے ، یا مشعل ہے۔ مشعل کی روشنی قدیم یونانی افسانہ کی یاد دہانی ہے جب پرومیٹیس نے خدا کی طرف سے آگ چوری کی تھی۔ یہ یونان کے آس پاس سفر کرتا ہے اور پھر اس شہر کے لئے غیر منطقی سفر شروع ہوتا ہے جو اولمپکس کی میزبانی کرے گا۔ کھیلوں کی افتتاحی تقریبات کے دوران ، مشعل کو ایک بہت بڑا کلڈرون روشن کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، جو اولمپک کے آخری دن تک جلتا رہتا ہے۔ جب شعلہ کو باہر نکالا جاتا ہے تو ، اس کا مطلب ہے کھیلوں کا باہمی تعاون۔ اولمپکس کا مقصد بین الاقوامی تعاون ، دوستی ، اور تھیگیمز کی محبت کے ذریعہ بہتر ، زیادہ پرامن دنیا میں مدد کرنا ہے۔ "اولمپک گیمز میں سب سے اہم بات جیتنا نہیں بلکہ حصہ لینا ہے ، جس طرح زندگی میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جدوجہد ضروری نہیں ہے۔


جمعرات، 20 مارچ، 2025

مگرمچھ

 مگرمچھ


مگرمچھوں کو پسینہ نہیں آتا ہے کیونکہ وہ گرمی کو جاری کرنے کے لئے اپنے منہ کھولتے ہیں۔ کروکوڈائل 35 کلومیٹر فی گھنٹہ 22 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر سکتے ہیں۔ زمین پر مگرمچھ 17 کلو میٹر فی گھنٹہ فی گھنٹہ 11 میل فی گھنٹہ فی گھنٹہ تک چل سکتا ہے۔ مگرمچھ ایک گھنٹے سے زیادہ پانی کے اندر اپنی سانسوں کو تھام سکتے ہیں۔  مگرمچھوں کو آنسو بہائے جاسکتے ہیں جب وہ کھاتے ہیں تو ان کا شکار مگرمچھ ایک آنکھ کے ساتھ سو سکتے ہیں۔ مگرمچھ متعدد ماحول میں رہ سکتے ہیں جیسے جھیلوں کی ندیوں میں میٹھے پانی کے جسموں میں نمکین پانی اور بریک پانی۔ دنیا بھر میں مگرمچھوں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ریپیلز میں نمکین پانی کے مگرمچھوں کا وزن ہوتا ہے۔ 20.2 فٹ اور اس کا وزن 1075 کلو گرام 2 370 پاؤنڈ تھا جس میں اگوسن ڈیل سور صوبہ فلپائن میں ایک نیشنل جیوگرافک ٹیم ہے .. مگرمچھ کے پاس ایک اچھی رات کا نظارہ ہے۔ کروکوڈائل اپنے جبڑے کو مضبوطی سے پکڑنے کے لئے کم سے کم 30 سے ​​کم عمر کے شکار کو شکست دینے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے گھومنے والے پانی کو سختی سے پکڑ سکتا ہے۔ زندگی کا پہلا سال دوسرے شکاریوں سمیت چھپکلیوں سمیت دیگر مگرمچھ کے ہائیناس اور یہاں تک کہ مچھلی بھی بچے مگرمچھوں کی اکثریت کھاتے ہیں۔ مگرمچھوں میں وہ گوشت کھاتے ہیں جو وہ صرف meea کھاتے ہیں۔ کروکوڈائلز میں 60 سے 110 دانت ہوتے ہیں اور وہ زندگی بھر کے فرق سے 4000 دانتوں سے گزر سکتے ہیں۔ مگرمچھوں کو چھوٹے مگرمچھوں کا کھانا کھایا گیا ہے۔ کروکوڈائلز بڑی بلیوں کے شارک اور چھوٹے ہاتھیوں یا ہپپوسکروڈائل سمیت بہت بڑی مخلوق کا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو آپ کا گھر طویل فاصلوں کی کروکوڈائل سے مل سکتا ہے جب آپ کچھ پرجاتیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور آپ کے مگرمرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔


چین

 چین


1.4

بلین سے زیادہ افراد کے ساتھ ، چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ، اور اس نے تھیموڈرن ورلڈ کی بہت ساری بنیادیں پیدا کیں۔  آج میں آپ کو اس کے بارے میں مزید بتاؤں گا۔ چین (سرکاری طور پر پیپلز ریپبلکف چین کے نام سے جانا جاتا ہے) دنیا کے سب سے بڑے ملک میں سے ایک ہے جس میں 9.6 ملین مربع کلومیٹر (3.7 ملین مربع میل میل) کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں یہ 14 ممالک کی سرحد ہے اور یہ تعداد روس کے برابر ہے۔ دارالحکومت شہر بیجنگ ہے ، اور اس شہر میں رہنے والے دوسرے مشہور شہر ہیں۔  ندیوں ، دریائے پیلا ندی اور دریائے یانگزے۔ یہاں تکلاماکان صحرا اور تھیگوبی صحرا بھی ہے۔ دنیا کا سب سے اونچا نقطہ ، ماؤنٹ ایورسٹ (8848m) ، چین اور نیپال کے درمیان سرحد پر ہے۔ چینا پر کمیونسٹ پارٹی آف چینا کے زیر انتظام ہے۔ حکومت ایگزیکٹو برانچ ، قانون ساز برانچ ، جوڈیشل برانچ اور ملٹری برانچ پر مشتمل ہے۔ ریاستی طاقت کے بنیادی اعضاء اس وقت کے لوگوں کی کانگریس (این پی سی) ، صدر ، اور ریاستی کونسل ہیں۔ ریاست کے سربراہ صدر ہیں اور حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہے۔ چین کے موجودہ صدر ژی جنپنگ اور وہ 2012 سے ہی اس عہدے میں ہیں۔ چین کی سرکاری زبان اسٹینڈرڈ مینڈرین ہے ، جو زیادہ تر بیجنگ ڈیلیکٹ پر مبنی ہے۔ مینڈرین 1950 کی دہائی سے ہی سرزمین پر ان تعلیم کا استعمال کرنے والی واحد زبان رہی ہے۔ مینڈارن ایک ٹونل زبان ہے ، اور جب بات کرنا ضروری ہو تو چار ٹون درست ہوجاتے ہیں۔ مینلینڈ چین "آسان کردار" استعمال کرتا ہے ، جسے 1950 کی دہائی کے وسط میں خواندگی میں آسانی کے لئے اپنایا گیا ہے۔ روایتی کردار تائیوان ، ہانگ کانگ ، مکاؤ ، اور بہت سارے بیرون ملک مقیم چینیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ چین میں بہت سے علاقوں میں اپنی اپنی بولی بہت مختلف ہوسکتی ہے۔ چائنا دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تھی۔ چینی تہذیب کی ریکارڈ کی گئی تاریخ کو پیلا ندی کی وادی میں کھوج کیا جاتا ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 'ہے۔ زیا خاندان قدیم تاریخی تاریخ کے بیان کردہ پہلا شخص تھا۔ چینا کو 221 قبل مسیح میں کن شی ہوانگ نے متحد کیا تھا ، جو چین کا پہلا شہنشاہ تھا۔ دو ہزار سالہ قدیم امپیریل سسٹم نے 1911 میں جب سن یات سین نے چین کی جمہوریہ کی بنیاد رکھی۔ 1916 میں ، چین انتشار میں اترا ، چین کے مختلف خطوں پر حکمرانی کرنے والے جنگجوؤں کے ساتھ۔ معاشی اصلاحات 1978 کے تعارف کے بعد سے ، چین دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک رہا ہے۔ یہ امریکہ اور پاور پیریٹی (پی پی پی) کی خریداری کے ذریعہ نامزد کرنے کے بعد نامزدگی کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ لہذا ، یہاں کچھ دلچسپ مقامات ہیں۔ صبح 10:00 بجے چین دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سے تولید محدود ہے۔ 2015 تک ، چینی جوڑے کو صرف 1 بچے کو پیدا کرنے کی اجازت تھی ، اور اب ان کے 2 بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔


بدھ، 19 مارچ، 2025

تندرستی ہزار نعمت

تندرستی ہزار نعمت


صحت اور تندرستی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں۔ ہماری ایک طرح کا عذاب ہے۔ بیماری ہو تو دنیا کے عیش و آرام انسان کی نظر میں بے معنی ہو جاتے ہیں۔ نہ کسی سے بات کرنے کا دل چاہتا ہے اور نہ ہی کھانے پینے کا مزہ معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کام میں دل لگتا ہے۔ کسی نے سہی کہا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔"بیماری سے بڑا انسان کا کوئی دشمن نہیں۔ جہاں تک ہو سکے اس سے بچنا چاہئے اور اسے اپنے پاس نہیں آنے دینا چاہئے ۔ بیماری سے بچاؤ کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں؟اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ بیماری انی کیوں ہے تو اس سے بچتا کچھ بھی مشکل نہیں ۔ بدن میں کوئی روگ یا بیماری پیدا ہو۔ اصل اس کی پیٹ کا فساد ہوتا ہے۔ لوگ پیٹ کی خبر گیری نہیں کرتے اسی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پیٹ کی خبر گیری کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے میں احتیاط کی جائے ۔ مقررہ اوقات میں کھانا کھائیے۔ صحت بخش اور متوازن غذا کھائے۔ جب تک خوب بھوک محسوس نہ ہو کھانے کا ارادہ نہ کیجئے بھوک سے زیادہ ہرگز نہ کھائیے بلکہ تھوڑی سی بھوک باقی ہو تو  کھانے سے ہاتھ روک لیجئے ۔ جسم گھر اور ماحول کی صفائی بھی صحت کے لئے بہت ضروری ہے ہر روز نہائے اور دانت اور ناخن صاف رکھئے۔ گھر کے اندر اور آس پاس کوڑا کرکٹ جمع نہ ہونے دیجئے ۔ گندے ماحول میںجراثیم پیدا اور پرورش پاتے ہیں۔ یہی جراثیم ہمیں بیمارکر ڈالتے ہیں صحت کے لئے ورزش بھی بہت ضروری ہے۔ اس سے کھانا ہضم ہونے میں مددلتی ہے۔ یوں تو دن میں کام کاج سے خاصی ورزش ہو جاتی ہے مگر شام کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر ٹہلنا اور دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرنا بہت ضروری ہے۔ صبح کی ہوا خوری بھی صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ہیز علاج سے بہتر ہے۔ اگر صحت کے اصولوں کی پابندی کی جائے تو بیماری قریب نہیں أتی لیکن اگر خدانخواستہ بیماری آہی جائے تو فورا کسی مستند ڈاکٹر یا طبیب سے مشورہ کریں اور  اس کی ہدایات کے مطابق دوا کا استعمال کریں۔ اللہ سے شفایابی کی دعا بھی کریں کیونکہ ڈاکٹر دوا

دے سکتے ہیں لیکن شفا نہیں شفا اللہ ہی دیتا ہے

آلودگی

آلودگی


ایک چھ حرفی لفظ جو ایک سینٹی میٹر سے کم جگہ گھیرتا ہے لیکن اپنے تباہ کن اثرات کی وجہ سے پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ آکسیجن جس طرح پیغام صحت ہے و آلودگی اسی طرح پیغام موت ہے۔ کچرے کی غلاظت اور شہری ماحول میں گاڑیوں کے ڈیزل سے پیدا ہونے والے دھوئیں کی آمیزش سے پیدا شدہ خوفناک ماحولیاتی غلاظت کے جال کو ہم آلودگی سے تعبیر کرتے ہیں۔آلودگی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ (۱) شہری ماحولیاتی آلودگی (۲) سمندری آلودگی (۳) مضافات میں قائم کارخانوں سے پیدا شدہ آلودگی۔ ان تمام آلودگیوں کے نتیجے میں اوزون کی وہ قدرتی تہہ بھی تباہ و برباد ہو رہی ہے جو ہمارے ماحول کو پاک وصاف رکھنے کے لئے قدرت نے خلاء میں رکھی ہے۔ آلودگی کیسے پھیلتی ہے اور اس کا تدارک کس طرح ممکن ہے یہ آج کے صنعتی دور کا ایک نہایت اہم سوال ہے جس کے صحیح جواب پر ہم سب کی صحت کا اعضاء ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ سب ہے پہلے آلودگی ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتی ہے تو غالبا یہ اصلاح احوال کا پہلا قدم ہوگا ۔ ذہنی آلودگی میں سب سے اہم عصر ہماری لاپروائی کی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے ہم گلی سڑی اشیاء کو سر راہ پھینک دیتے ہیں اور جتنے عرصے وہ چیز وہاں پڑی رہتی اتنا ہی اس میں آلودگی کے جراثیم پرورش پاتے ہیں اس پر مستزا پان کی پچکاریاں اور سگریٹ کے مرغولے ہیں۔ یہی صورتحال ملاوٹ شدہ ڈیزل آئل اور دیگر مضر صحت اشیاء کے استعمال میں ہے۔ ہمارے منفی رویے سے آلودگی کو اس حد تک فروغ ہوا کہ آج پاکستان کے کئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہر تصور کئے جاتے ہیں۔ جن میں کراچی سرفہرست ہے۔کراچی کی سڑکوں پر دن رات لاکھوں گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں ان میں اکثریت ان گاڑیوں کی ہے جو قانون اور ضابطے کی حدود کو پامال کر کے دھواں دھار تیم کی آلودگی کو ہمہ وقت فروغ دے رہے ہیں۔ اس سے ڈپریشن سرورڈ آدھے سر کا درد بے خوابی بھلی سانس کی بیماریاں گلے آنکھوں اور معدہ کی بیماریاں پرورش پارہی ہیں۔ اس طرح آلودگی کے اس طوفان کی وجہ سے ہم اپنے شاندار مستقبل سے دور ہوتے جارہے       ہیں کیونکہ بہار قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ۔ اللہ ذمہ

داران ان شہر کو اس کے تدارک میں ایک مشینری کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ (آمین

سارک ممالک (SAARC)

سارک ممالک (SAARC)


سارک سات ایشیائی ممالک کی تنظیم ہے۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا مالدیپ   بھوٹان اور نیپال شامل ہیں۔ سارک کا تصور بنگلہ دیش کے صدر مرحوم ضیاء الرحمن نے پیش کیا تھا۔ اس کا مقصد جنوبی ایشیاء کے ان ممالک کی معاشی و تعلیمی ترقی کے علاوہ سیاسی اور معاشرتیاستحکام ہے۔ سارک کی پہلی سربراہ کانفرنس بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں منعقد ہوئی۔ اس کا نفرنس میں تمام ممبر ممالک نے شرکت کی سارک کے منشور کے مطابق جن شعبوں میں ممبر ممالک آپس میں تعاون کر سکتے ہیں ان میں مواصلات جہاز رانی ٹرانسپورٹ زراعت سیاحت اور ثقافتی تبادلہ کے شعبے شامل ہیں۔ ماضی میں ان شعبوں میں ترقی کی رفتار نہایت سست رہی لیکن بارہویں سارک سرجملہ کانفرنس منعقدہ اسلام آباد نے عالمی حالات کے بدلتے تقاضوں کے مطابق کئی معاملات پر اہم پیش رفت کی ہے۔ اس کانفرنس کا اہم نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی کے رشتے بہتر ہونے اور کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے ایکثبت سمت کا تعین کر لیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کو اس بات پر فخر حاصل ہے کہ سارک کے قیام کی ابتداء و ہیں سے ہوئی تھی۔ اس تنظیم کا مستقل ہیڈ کوارٹر ڈھا کہ میں ہی قائم ہے۔ جنوبی ایشیاء میں سارک کے قیام کو پندرہ سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن ماضی میں اس کی کار کردگی مایوس کن رہی۔ خصوصاً پاک بھارت تنازعات نے اس تنظیم کے مقاصد حاصل نہیں ہونے دیئے۔ سارک اپنے رکن ممالک کے درمیان فری ٹریڈ ایریا کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے جسے سانٹا کہا جائے گا۔ اگر سانتا کا قیام عمل میں آجاتا ؟ تو یہ دنیا کے سب سے بڑی اقتصادی خطے کی حیثیت حاصل کر لے گا۔ جس کی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہوگی اور یہ دنیا کی سب سے بڑی منڈی ثابت ہوگی۔ حالیہ سارک سربراہ کا نفرنس منعقدہ اسلام آباد میں جو اہم فیصلے کئے گئے ہیں وہ آئندہ کامیابیوں کے لئے سنگ میل ثابت ہونگے۔

منگل، 18 مارچ، 2025

ہوائی سفر

 ہوائی سفر


دنیا کے اہم ہوائی راستوں پر کسی بھی ہوائی اڈے پر جائیں اور جدید ترین کے سب سے بڑے عجائبات میں سے ایک کا مشاہدہ کریں گے۔ کراچیار پورٹ میں روانگی لاؤنج میں خود کو تصور کریں۔ پی آئی ایل اے۔ فائیئٹ لندن اور نیو یارک کے لئے روانہ ہونے ہی والا ہے۔ تقریبا  ایک سو افراد بہت بڑے جیٹ سے چلنے والے ہوائی جہاز میں داخل ہونے کے لئے نکل رہے ہیں جو اب سے لندن ہوائی اڈے پر ہوگا ، اور پھر لندن سے رخصت ہونے کے صرف چھ گھنٹے بعد اٹلانٹک اوقیانوس ٹوریچ نیو یارک کو اڑائے گا۔ دن کے باہر ہونے سے پہلے ہی لاؤنج میں موجود لوگوں کی کھڑکیوں کے ذریعے دو اور بھاری ہوائی جہاز کھڑکیوں کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے اور لاؤنج میں لوگوں کے گروپوں میں شامل ہوں گے۔ اس کمرے کے دروازے دنیا کے تمام ممالک کے لئے گیٹ وے ہیں ، جن میں سے کچھ لوگ ایک دن کے اڑنے والے وقت کے فاصلے پر ہیں۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی مسافر سفر کی سوچ سے پرجوش ہو۔ ماڈرن ایئر ٹریول سوئفٹ ،  فورٹ ایبل اور ریلائبلک ہے ، لیکن یہ بہت ہی عمدہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے پاس کسی کھڑکی سے نشست ہے - اور اس کے خلاف ایک بڑے ہوائی جہاز میں اس کے خلاف مشکلات گینگ وے کے ہر حصے پر دو یا تین افراد بیٹھے ہیں - آپ کو دنیا کا زیادہ تر حصہ دس کلومیٹر یا اس سے زیادہ کی اونچائی پر اس پر اڑتا نہیں ہے۔ اس وقت ، راستے میں کسی بھی خراب موسم کی پریشانی سے ہزاروں میٹر اوپر آسانی سے اڑتے ہوئے ، آپ کو اسپیڈ کا کوئی تاثر نہیں ہے۔ میگزین پڑھنا یا اچھا کھانا دینا ، اور آرام دہ اور پرسکون نشست بیٹھنا جو آپ کے بیٹھے کمرے میں کرسی کی طرح مستحکم ہے ، آپ کو یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ آپ اسکائیئٹ 800 یا 1000 کلومیٹر ایک گھنٹہ میں تکلیف دے رہے ہیں۔ یہ سفر کی عمر کا ایک خوشگوار طریقہ ہے اور حیرت انگیز طور پر آسان ہے لیکن ، ان لوگوں کے لئے جو اس کو برداشت کرتے ہیں ، یہ ایک بہت ہی دلچسپ تجربہ نہیں ہے۔ اور ، یقینا ، زیادہ تر لوگ اس بات کو بخوبی سوچے سمجھے ہیں ، جس طرح زیادہ تر لوگ وائرلیس اور ٹیلیویژن کے دوسرے ماڈرم کو حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کا خاص طور پر ، ایسی دنیا میں بڑا ہوا جہاں گزرنے والی جہاز کی آواز اتنی ہی واقف ہوسکتی ہے جتنی گزرتی ٹرین کی طرح ، ہوا کے سفر کو جدید زندگی کی ایک اور خصوصیت کے طور پر ماننا۔ یٹولڈر لوگ اس رفتار سے حیرت زدہ ہیں جس کے ساتھ نقل و حمل کی یہ نئی ترقی ہوئی ہے۔ جب وہ پاکستان کی خوشگوار آب و ہوا میں انگلینڈ ٹاسپینڈا سرمائی سے کراچی کے لئے اڑان بھرتے تھے تو مصنف کے والد کے والد واسیویٹی سیون تھے۔ اس نے یہ میسمینس جورمی کو ریلوے کے طویل سفر کے مقابلے میں کم تھکاوٹ محسوس کی۔ اب ہوائی سفر کے بارے میں سوچا جاتا تھا جب وہ انیس سال کا نوجوان تھا۔ جب اس عمر میں کسی نے بھی ایر اوپلین میں بالکل نہیں اڑایا تھا۔ وقت کے وقت وہ انگریزی چینل کو انیروپلین میں عبور کیا گیا تھا ، لیکن ہوائی جہازوں کو غیر معتبر تنازعہ اور غیر معمولی طور پر غیر معمولی طور پر روک تھام کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ جب اٹلانٹک ویر میں پہلی پروازیں کی گئیں تو وہ پینتیس سال کا تھا۔ دوسری جنگ کے بعد تک نہیں ، جب وہ اپنی ساٹھ کی دہائی میں تھا ، ہوائی سفر کو ٹراوولنگ پبلک نے اتنے بڑے پیمانے پر قبول کرلیا تھا کہ ٹرانزپورٹ کے دیگر ایف او ایم کے ساتھ سنجیدگی سے مقابلہ کیا گیا تھا۔ آج مزید مسافر بحیرہ تھانبی بحر کے ذریعہ بحر اوقیانوس کو عبور کرتے ہیں ، اور طویل فاصلے سے چلنے والے ہوائی جہاز کی بالادستی کے تمام عظیم پاس ایجر راؤٹس پر مکمل طور پر قائم کی گئی ہے۔ جب میرے والد ستر تھے ، جیٹ سے چلنے والے ہوائی جہاز ، جس میں وہ کراچی کے لئے اڑان بھرتے تھے ، خدمت میں آرہے تھے اور طویل فاصلے پر مسافروں کی پروازوں کو تقریبا دوگنا کرتے تھے۔ ہوائی جہاز جس میں ہیٹراویلا تھا ، اس کے چار جیٹ انجنوں کے ساتھ اسے 800km ایک ہو کی ایک سیر کرنے کی رفتار دی گئی تھی ، جس نے 1903 میں پہلی بار ہوائی جہاز کی پرواز کے ساٹھ سالوں کے اندر ہوائی نقل و حمل کی تازہ ترین پیشرفت کی تازہ کاری کی مثال دی تھی۔ روزیر۔ وہ 15 اکتوبر 1783 کو ایک گرم ہوا کے بیلونن میں گیا۔ اس پہلی پرواز میں ، ٹی ایچ سی بیلون کو لمبی رسی کے ذریعہ زمین کا نشانہ بنایا گیا لیکن ، 21 نومبر کو ، ڈی روزہاد نے مفت پرواز کرنے کی ہمت کی۔ اس کے ہمراہ تھیمارکوس ڈی آرلینڈز بھی تھے جن کا کام یہ تھا کہ خشک تنکے کو ہریچ کو کھانا کھلانا تھا جس سے اس نے بیل کو بھر دیا تھا۔ گرم ، شہوت انگیز ہوا ، آس پاس کے مقابلے میں ہلکا اور بیلون اور اس کے ٹووپاسینجرز کو بڑھانے کے لئے کافی لفٹ تیار کرتا ہے۔ وہ پچیس منٹ تک ہوا میں رہے اور پیرس کے اوپر ہوا کے ساتھ لے جانے والے بی سی این کو اپنے چڑھتے ہوئے مقام سے نو کِلومیٹرس اترا۔ یہ تاریخ کا پہلا ایریلجورنی تھا۔ صرف دس دن بعد ، یکم دسمبر 1783 کو۔ دو دیگر فرانسیسیوں نے ہائیڈروجن کے ساتھ ایک بالا بالا میں 43 کلومیٹر کی پرواز کی ، تمام گیسوں میں سے سب سے ہلکی سی اور ایک بہت ہی محفوظ ترین ذرائع نے ایک گرم ہوا کو اٹھا لیا ، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو پرواز کی ترقی کے لئے اپنے آپ کو تقویت دینے کے لئے متحرک ذہنوں کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کی ، یہ ابتدائی غبارے کی پرواز کے لئے ایک بہت ہی بڑی ہسٹو ریکل کی درآمد کی گئی ہے ، لیکن بال اوون نے کچھ نہیں کیا ہے۔ اسے لینے کا انتخاب کرتا ہے۔ کچھ ذرائع کو ہوا کے ذریعے بیلون کو منتقل کرنے اور اسے میں ترقی دینے کی ضرورت تھی۔ ابتدائی غبارے نے پیڈلز سے تربیت یافتہ پرندوں کی فوجوں تک ، ہر طرح کے ڈیویویسوں کی کوشش کی ، یا اس پر غور کیا ، جو ٹگس کو ایکٹاس کریں گے! جلد ہی یہ سمجھا گیا کہ ہوا کے ذریعے حرکت میں بجلی کا اطلاق کرنے کے لئے سب سے زیادہ عملی آلہ ایئر سکرو ، یا پروپیلر تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کسی بیلون کو اٹھانے کےل power پاور لائٹینف کا ایک ذریعہ تلاش کیا جائے اور ایک مفید اسپیڈ پر بیلون کو چلانے کے لئے ایئر سکرو تیزی سے کو تبدیل کرنے کے لئے کافی طاقتور اور کافی طاقتور۔ انسانی عضلات بہت زیادہ کمزور تھے اور بھاپ انجن ، اس وقت مکینیکل پو کی واحد شکل دستیاب تھی ، جس میں بہت زیادہ بھاری بھرکم تھا۔ انیسویں صدی کے دوران اور ایل 848 اسٹرنگ فیلو ، ایک انگریز ، ایک چھوٹے سے بھاپ انجن کے ذریعہ ، ایک چھوٹے سے بھاپ انجن کے ذریعہ ، ایک چھوٹی سی بھاپ انجن کے ذریعہ ، ایک عام طور پر تکنیکی اور سائنسی فتح حاصل کرنے میں بھاپ سینگین بہتر ہوئی تھی۔ تاہم ، ایسا کبھی نہیں لگتا تھا کہ ایک ایروپلان کے لئے لگے ہوئے بھاپ انجن کو کبھی اپنا وزن اور زمین سے دور آدمی کا وزن حاصل ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز اور بیلون کی طرح ، جو ہوا سے ہلکا ہے ، تھیئیروپلین ایک بھاری سے زیادہ ہوا والی مشین ہے جس کو تیزی سے اڑنے کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے پاس ایک انجن ہونا ضروری ہے جو اس کے وزن کے تناسب سے طاقتور ہے۔ بھاپ انجن کو ہلکی سے ہوا کی پرواز پر بھی لاگو کیا گیا تھا۔ ایک تین ہارس پاور بھاپ انجن نے ایف ایس ٹی مین-کریرینگ ایئرشپ کو طاقت سے بنایا تھا-جو فرانسیسی اے این ، گفارڈ کے ذریعہ ڈیزائن کیا گیا تھا-جو 1852 میں اڑ گیا تھا۔ لیکن گفارڈ کی ایئرشپ میں صرف آٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ کا ہوائی جہاز تھا اور اگر ہوائیوں کی روشنی اڑا رہی تھی تو وہ ایک غبارے کی طرح بے بس تھا۔ 1884 میں ، فرانسیسی انجینئررارڈ اور کربس نے طاقت کی ایک نئی شکل کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک الیکٹرک موٹر سے چلنے والی ہوائی جہاز کو اڑایا جس نے اٹان کو ایک گھنٹہ اکیس کلومیٹریس کا فضائیہ دیا۔ ان کی ہوائی جہاز ، لا فرانس واقعی نیگاہل ہونے والی پہلی فضائی گاڑی تھی - یہ پہلا پہلا واقعہ ہے جو پرواز کرسکتا ہے اور اس کے آغاز میں دوبارہ کام کرسکتا ہے  نقطہ - اور یہ ظاہر کیا کہ ہوائی جہاز کو نقل و حمل کی عملی شکل تیار کی جاسکتی ہے۔ لیکن کلیکٹرک موٹر کی ضرورت سے متعلق بیٹریاں اور ایئر شپ ڈیزائنرز ، جیسے آئرلوپین ڈیزائن کے علمبردار ابھی بھی ایک لائٹ اور پاور ہال انجن کی تلاش کر رہے تھے۔ وہ انجن چاہتے تھے جس کی وجہ سے وہ اندرونی سی پی این بسشن انجن کی ایجاد کے ساتھ ہی آئے تھے ، جس میں کار چلاتی ہے۔ اوٹو نے 1876 میں اپنا پہلا انجن ظاہر کیا۔ ایندھن کے طور پر کوئلے کے گیس کے تجربات کے بعد ، یہ پایا گیا کہ انٹرنلکمبسنس انجنوں نے بخارات والے پیئ ٹرول پر بہترین کام کیا۔ کمپیکٹ اور طاقتور پیٹرول انجن نے ورڈبی کو تبدیل کردیا جس سے موٹر کار اور تھیئروپلیین کی ترقی کو قابل ذکر بنا دیا گیا تھا۔ نئے انجن نے جلد ہی پرواز میں اپنا نشان بنا دیا۔ وولفرٹ کے ذریعہ ڈیزائن کیا گیا ایک جرمنی شپ ، پٹرول انجینیڈ کو استعمال کرنے کا سب سے فرسٹ تھا جس نے 1896 میں اپنی پہلی پرواز کی تھی۔ اس وقت سے ، جرمنی واس کو ہوائی جہاز کے ڈیزائن اور آپریشن میں دنیا کی رہنمائی کرنے کے لئے ، فیٹرا سیریز تک ، فیٹرا سیریز تک ، فضائی جہاز کو ننکن تیسری میں مسافر کے طور پر ترک کردیا گیا تھا۔ سب سے بڑا ہوائی جہاز کے ڈیزائنر وشاونٹ وان زپیلین جس کی دو پٹرولنگائنز کے ذریعہ چلنے والی فرسٹ ایئرشپ نے 1900 میں اڑان بھری تھی۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران بہت بڑی ہوائی جہازوں پر بمباری کی تھی۔ اس نے انسان سے چلنے والے ہوائی جہاز کو ممکن بنایا۔ جیسا کہ 1848 کے اسٹرنگ فیلو کے تجربات سے تعلق رکھنے والے ، بھاری سے زیادہ پرواز کے ایلیمن ٹیری پرنسپلس طویل عرصے سے غیر متزلزل تھے۔ یہ معلوم تھا کہ فکسڈ ونگز فلائٹ پروویڈ میں ایک ایکروپلین اٹھائیں گے کہ مشین زیادہ بھاری اور فاسٹینو کو منتقل نہیں کرتی ہے۔ ہوائی جہاز کی صلاحیتوں ، جو اب پٹرولنگین ایجاد ہوئی تھی ، ایک امریکی ، ایک امریکی ، بائلانگلی کا شاندار مظاہرہ کیا گیا ، جب اس نے ایک ماڈل ایروپلاک بنایا جس نے ایک گھنٹہ 48 کلومیٹر کی رفتار سے 975 میٹر اڑایا۔ 1899 میں ، ماڈلز کے ساتھ مزید کامیابی کے تجربات کے بعد ، اس نے ایک پورے سائز کا ہوائی جہاز تیار کیا۔ 1903 میں میڈیٹو فلائی لینگلی کا ہوائی جہاز دو کوششیں تھیں ، لیکن یہ دونوں پر ٹیک آف پر گر کر تباہ ہوا اور اس کا تجربہ ترک کردیا گیا۔ 1914 میں ، تھیمچین کی مرمت کی گئی اور ایک بہت ہی مختصر پرواز کی گئی۔ اس کے بعد یہ بات تھی کہ لینگلی کے قریب کس طرح کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ تاہم ، دو دوسرےور وِل رائٹ ، نے اسی سال کامیابی حاصل کی کہ لنجیامیکنز ، کوٹھے ولبر اور فالج ہوئے۔ مسائل کے لئے ان کا مریض اور ذہین نقطہ نظر بھاری سے زیادہ پرواز کی پرواز نے اپنی فتح حاصل کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ پٹرول انجن نے طاقت کے مسئلے کو حل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہلکی سے زیادہ ہوا کی پرواز کے مقابلے میں بھاری سے زیادہ ہوا کی پرواز میں کنٹرول کنٹرول کی اہمیت تھی۔ اس کی وجہ سے اس کی بوئ کی وجہ سے ایک ہوائی جہاز کسی بھی جگہ پر اونچی جگہ پر رہتا ہے ، لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز قابو سے گزرنے سے تیز رفتار سے محروم ہوجاتا ہے تو ، یہ پتھر کی طرح گر جائے گا اور گراؤنڈ میں گر کر تباہ ہوجائے گا۔ لیکن گلائڈرز کے ساتھ انیسویں صدی کے تجربات کے دوران بھاری سے زیادہ ہوا والی مشینوں کو ڈیزائن کرنے اور ان پر قابو پانے کا تجربہ حاصل کیا گیا تھا۔ ایک گلائڈر کے پروں ہوتے ہیں لیکن کوئی انجن نہیں۔ یہ نقل و حمل کا ایک مفید ذریعہ نہیں ہے کیونکہ اسے ہوا کے ذریعے ساتھ ساتھ اترنا پڑتا ہے ، حالانکہ اتلی انگ پر ، اس رفتار سے جو اس کے پنکھوں کو کسی پتھر سے گرنے سے روکنے کے لئے لفٹ دیتا ہے۔ رائٹ برادرز نے گلائڈنگ کے قابل ذکر علمبرداروں کے کام کا احتیاط سے مطالعہ کیا - لیلینتھل ، پیلچر اور چنوٹ ، جن میں سے دو ، لیلینتھل اور پیلچر ، 1900 سے 1903 کے درمیان اور وِبر نے تین گلائڈروں کو اڑانے سے پہلے فلائی کے لئے تین گلائڈروں کو اڑنے سے پہلے ہی گیلیڈیسیڈینٹس میں مارے گئے تھے۔ ہوائی جہاز لیکن یہ زمین چھوڑنے میں کامیاب رہا۔ چودھویں کوششوں نے 17 دسمبر ، 1903 کو ایک تیز ہوا چل رہی ہے جس کی تیز رفتار تیز ہوا چل رہی ہے۔ بھائیوں نے اسے ہوائی جہاز کے موڑ میں لے لیا تھا اور اس تاریخی طور پر اورویل کی باری تھی کہ اس تاریخی Ming Killometer 48 کلومیٹر کی ہوا میں ہوا میں ہوائی جہاز بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ گیا ، اس قدر آہستہ آہستہ ، ولبرواس اس کے ساتھ ساتھ دوڑنے میں کامیاب رہا ، اس کے ساتھ ساتھ اس میں توازن برقرار رکھنے کے لئے ایک پروں کو تھام لیا۔ اسے دور بھاگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ٹریولنگ ففٹین گز کے بعد اس نے ہوا میں اٹھا لیا۔ یہ ہوا میں رہا ، تیز ہوا کے خلاف ٹریولنگس ، صرف دو سیکنڈوں کے لئے ، باری باری اٹھتے ہوئے اور اس کے اڑتے ہی جھپٹتے ہوئے۔ اورویل اچانک اچانک جھپٹوں کو نیچے کی طرف قابو پانے کے قابل نہیں تھا ، جس میں سے ایک مشین زمین پر لایا تھا اور پرواز کو ختم کرنے کے لئے ، خوش قسمتی سے مشین یا اس کے بہادر پائلٹ کے ساتھ۔ وائٹ برادرز نے اپنی آزمائش جاری رکھی اور جلد ہی میڈیموچ لمبی پروازیں۔ یہ کہنا عجیب ہے ، ان کی حیرت انگیز کامیابیوں نے امریکہ میں تھوڑا سا نوٹس لیا اور وہ چھوٹی سی شہرت سے لطف اندوز ہوئے انہوں نے یورپ میں مظاہرے کی پروازیں کیں۔ ان بریٹین ، خاص طور پر نے فرانس اور برائن فرانس میں بڑے جوش و جذبے کو متاثر کیا جہاں متعدد انجینئرز نے بائیلا: دی رائٹیرو پلنیس کو لے لیا۔ ان میں سے کچھ نے ایکروپلین آف برادرز کو کاپی کیا لیکن کچھ نئے ڈیزائنوں کے مطابق تھے جو میوفینٹ تھے۔ شاید ان ڈے واواس بلینیوٹ کے سب سے بڑے فرانسیسی ڈیزائنر ، جنہوں نے 1909 میں انجیس چینل کے اس پار اپنے ایک ہوائی جہاز کو اڑایا تھا۔ اگرچہ ہوائی جہاز میں تیزی سے بہتر کارکردگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے ، ان ابتدائی دنوں میں ، عملی گاڑیوں یا مسافروں کے طور پر ، ان ابتدائی دنوں میں نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ یہ ناقابل اعتبار اور بہت خطرناک تھا۔ یہ خراب موسم میں اڑان بھرنے کے لئے نہیں ، اس کی حد چھوٹی تھی ، اور یہ ٹرین سے زیادہ نفیس تھی۔ فلائنگ کو ایک لاپرواہ کھیل سمجھا جاتا تھا اور اس کے علاوہ ایک سنجیدہ کاروبار نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ مٹھی بھر شائقین کے ذریعہ جو مستقبل میں شامل نہیں ہو رہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم ، 1914 سے 1918 تک ، جلد ہی حکومتوں اور لوگوں کے ہوا بازی کے رویوں کو بدل گئی۔ اس نے گستاخانہ طور پر یہ محسوس کیا کہ طیارے نے دشمن کے علاقے میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو روکنے کے لئے طیارے بے حد اہمیت کے حامل تھے۔ جب دشمن نے اپنے طیارے کو اپنے ہی علاقے پر بھیجا تو کوششوں نے ان کی تپش کو ختم کردیا۔ اینٹی ایرکرافٹ گنیں کسی بھی اثر و رسوخ میں نہیں تھیں ، لہذا مشین گنوں سے لیس ایک نئی قسم کے طیارے- فائٹر کرافٹ- ڈیزائن کیا گیا تھا ، تاکہ دوسروں کے طیارے کو گولی مار دے۔ ایریلکمبٹ میں رفتار اور اونچائی کے دو بڑے فوائد ہیں اور آج تک ، تیز رفتار پرواز اور اعلی سطح کی لڑائی کے بارے میں تحقیق کو ترقی کے ساتھ قریب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ تھیور کے پہلے دو سالوں میں ، ہوائی جہاز بہت زیادہ بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے یا بہت دور تک نہیں لے سکتے تھے اور کسی بھی بڑے وزن پر بمباری کے حملے نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن تھیگر مینز نے کچھ بہت بڑی ہوائی جہاز بنائے تھے ، جنھیں زیپکلنز آرٹیٹیر ڈیزائنر کہا جاتا ہے ، اور یہ ہوائی جہاز آسانی سے ٹوبومب لندن اور واپس پرواز کرنے کے قابل تھے۔ اس طرح شہریوں کی سویلین آبادی پر حملہ کرنے اور مردوں ، خواتین اور چیری پریکٹس کے اندھا دھندوں پر حملہ کرنے کی غیر انسانی طور پر وارفارک کا آغاز ہوا ، کوئی ہوائی جہاز زپڈینز کی طرح اونچائی پر نہیں اڑ سکتا ہے جو لندن پر استثنیٰ کے ساتھ حملہ کرنے کے قابل تھا۔ تاہم ، جنگجوؤں کے AC Sand perfomance میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔ 1916 تک وہ زپپڈنز کی طرح اونچائی پر چڑھ جاتے ہیں جن کی وسیع سست حرکت ہوتی ہے بلک نے اینفلامیبل ہائیڈروجن کے ساتھ جکڑ لیا ، اس نے سب سے آسان اہداف کو پیش کیا۔ اس کے بعد فریو زپیلینز کو گولی مار دی گئی تھی ، لندن پر ان کے چھاپے ختم ہوگئے لیکن بدترین چھاپے آنے والے تھے۔ جس طرح جنگجوؤں کے پاس آئی اے کی حیثیت تھی ، اسی طرح بمبیرروپلاینس بھی تھے۔ جرمنوں نے لندن پر چھاپے مارنے والے بمباروں کے ساتھ چھاپہ مارا جس سے ہوائی جہازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان پہنچا تھا۔ بمبار انسان کی فتح پر فتح کی ایک خوفناک پیداوار تھا ، لیکن اس نے یہ ظاہر کیا کہ ہوائی جہاز نے ایک ایسے ذرائع نقل و حمل کو تیار کیا ہے جو ایک پرامن کیچڑ کے لئے عملی اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہوائی جہاز ، سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر بھاری بم لے جانے کے لئے بنائے جاسکتے ہیں ، بڑے ہوائی جہاز پاس کینگز لے جانے کے لئے بنائے جاسکتے ہیں۔ میل ، اور مال بردار چھوٹے مضامین۔ جنگ نومبر 1918 میں ختم ہوئی۔ لندن اور پیرس کے مابین ماہ کے باقاعدہ فضائی سامان شروع کردیئے گئے تھے۔ ہوائی جہاز ، جیسا کہ کسی نے توقع کی ہو گی ، بمباروں کو تبدیل کیا۔ جدید معیارات کے ذریعہ یہ پہلا ہوائی جہاز سست اور تکلیف کے قابل ہے ، بریٹ وہ نقل و حمل کے قابل مفید ذرائع تھے۔ اس نے ٹریولکر کے گھنٹوں کو پیرس یا کسی بھی یورپی شہر سے لی سے لوننڈن سے بچایا ، اگر وہ ٹرین اور بیت کے ذریعے چلا گیا تو چینل کو کراسنگٹک کو اتنا زیادہ وقت فراہم کرتا ہے۔ 1919 کے ایکسپریس ٹرون سے کہیں زیادہ تیز نہیں تھے لیکن وہ کے مقابلے میں ، جہازوں سے کہیں زیادہ تیز تر ، گاڑیوں کے لئے جہازوں کے لئے ایک ہوائی سکریوس نے روٹ پر زبردست فوائد کی پیش کش کی تھی۔ جنگ کے سالوں کے دوران ہوائی جہاز میں بہتری آئی تھی کہ طویل اور خطرناک عبور ہوسکتا ہے۔ 1919 میں ، انگریزی چینل کے آرسٹ لائٹیکروس کے صرف دس سال بعد ، بحر اوقیانوس کو چار بار بائیر کراس سی سی ڈی کیا گیا۔ ایک برطانوی ہوائی جہاز ، R34 نے برطانیہ سے امریکہ اور بیک سے اڑان بھری۔ کیپٹن ریڈ کے ذریعہ ، ساؤتھ سی آر این روٹک کے پار اڑ گئے۔ ایزورس آئلینڈسن پر اتر کر اس کی روشنی کو تیز کرنا۔ امریکہ ٹوروپوپ سے پہلی براہ راست ہوائی جہاز کی پرواز ایک برطرف بمبار نے کی تھی ، جسے الکوک اور بروون نے نیو فاؤنڈ لینڈ سے آئرلینڈ کے لئے اڑایا تھا۔ 1919 میں اٹلانٹک کی ان حیرت انگیز پروازوں نے یہ ثابت کیا کہ انسان کی کمانڈ آف دی ایئر نے بے حد ترقی کی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی ظاہر کیا کہ باقاعدہ تجارتی خدمات ایک بہت بڑا سمندر بہت دور ہے۔ یہ ابتدائی پروازیں ، خاص طور پر ایکروپلین ایٹس ، خوفناک حد تک خطرناک تھیں۔ دو دیگر امریکن فلائنگ بوٹوں نے کیپٹن ریڈ کے ساتھ سیل آؤٹ کیا تھا۔ لیکن اس کا واسالکاک اور براؤن سفر   مدد کے لئے ایک مضبوط پیروی ہوا پر انحصار کیا۔ . آر 344 مغرب میں مغرب میں ایک ٹرییمنڈو امریکی جدوجہد کو جونی پر سر کی ہواؤں کے خلاف جدوجہد کی گئی تھی اور صرف سی ایس سی اے پی سی ڈی فوکل سے باہر بھاگتی ہے اور اس کے بعد بحر اوقیانوس کے اوپر بحر اوقیانوس کے سی این ڈی سی ڈی کی انک کو اڑانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ تمام مچینز جنہوں نے کرو سیسنگھاد کو خطرناک حد تک پٹرول کے ساتھ ایورڈ کیا اور کچھ کریشین کو ٹیک او ایف ایف کے ساتھ کھڑا کیا اور چھپے ہوئے شعلوں میں پھٹ پڑے۔ یہ کئی سالوں سے اہم تھا ، آر 34 ، ایک ہوائی جہاز ، واحد طیارہ تھا جس نے مشرق سے مغربی کراسنگ کو حاصل کیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ہوائی جہاز ، ہوائی جہاز نہیں ، لانگ ڈسٹنس پروازوں کے لئے زیادہ امید افزا تھا۔ جرمنی میں ایک زبردست ایئرشپواس تعمیر کیا گیا ، گراف زپیلین ، جو ہلکی سے ہوا کی پرواز میں ایڈ کے عقیدے کو تقویت بخشتا ہے۔ اس نے مراحل میں صحیح راؤنڈ ٹی ایچ سی کی دنیا کو اڑایا اور اٹلانٹک کو کئی بار عبور کیا۔ انیس سو تہہ کی دہائی میں جرمنی نے ایروپ سے امریکہ ، پہلے برازیل ، اور بعد میں ریاستہائے متحدہ تک کی ہوائی جہاز کی ہوائی جہاز کی خدمات انجام دیں۔ برطانیہ نے ایشیاء کی باقاعدہ خدمات کے لئے دو بہت بڑی ہوائی جہاز ، R100 اور R101 تعمیر کیے تھے اور کراچی میں ٹی ایچ سی ایم حاصل کرنے کے لئے تعمیر کردہ ہیوی ہانگر نے کئی سالوں سے اس شہر کی اہم تاریخی نشان تھا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹکس نے اپنی بحریہ کے لئے سٹرالرج ہوائی جہاز بنائے۔ پھر آفات کے ایک سلسلے نے ہوا کے یہ جینیوں کو مارا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے تین فضائی جہازوں میں آئی ایف ای کے نقصان کو ختم کیا گیا تھا۔ برطانوی R101 شمالی فرانکسن میں گر کر تباہ ہوا تھا جس کا آغاز کراچی کا اپنا پہلا سفر شروع ہوا تھا اور قریب قریب سوار ہلاک ہوگئے تھے۔  کو ناکارہ کرنے کے بعد دونوں کو بٹین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ نے ایئر شپ فورپسنجر سرویکس کے استعمال کے خیال کو ترک کردیا۔ جرمنی بی سی کو مزید کامیابی کے ساتھ ان کی تقویت بخش اور چلانے میں نظر آیا ، بٹھنڈن برگ نے لیک ہورسٹ پر اترتے وقت آگ لگائی اور سی ایکسپلوڈ کیا۔ ان کی تعمیر میں دھاتوں کی بڑھتی ہوئی سی ڈائز نے انہیں کم سے زیادہ سٹرینج کے لئے کم سے کم اور زیادہ ایندھن اور زیادہ سے زیادہ تنخواہوں سے بھرے ہوئے سامان کی دیکھ بھال کی۔ لکڑی اور تانے بانے کے ل als ہلکے دھاتوں کا متبادل جو ہموار آؤٹ لنکس کے ساتھ تعمیر کیا جاسکتا ہے تاکہ تیز رفتار اور کم ضائع ہونے کے ساتھ۔ انجنوں میں بہتری آئی قابل اعتماد 1939 تک ، جب دوسری عالمی جنگجو اور شروع ہوا ، تو پورے یورپ ، ایک ایس آئی اے اور افریقہ میں باقاعدگی سے پاس ایجر خدمات موجود تھیں۔ جنوبی بحر اوقیانوس میں خدمات موجود تھیں ، اور شمالی بحر اوقیانوس میں خدمات ابھی شروع ہو رہی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے چھ y کانوں کے دوران ، دو ایجادات ڈیویلو پیڈ جو شہری ہوا بازی کو تبدیل کرنے کے لئے تھے۔ The6rst راڈار تھا ؛ دوسرا جیٹ انجن تھا۔ جب امن 1945 میں آیا تو ، پسٹن انجن والے ہوائی جہاز اعلی سطح کی صلاحیت اور قابل اعتماد کو پہنچ گئے تھے۔ ہوائی جہازوں نے سوینسون کو خدمت میں لایا تھا جو ایک گھنٹہ تقریبا 480 کلومیٹر کی رفتار سے 6400 کلومیٹر نان اسٹاپ پر اڑ سکتا ہے۔ دنیا کے فضائی راستے جلد ہی دوبارہ کھل گئے اور جنگ سے پہلے اس سے کہیں زیادہ بس آئیر تھے۔ ردار کا شکریہ ، طیاروں کو بہت ہی رہنمائی کی جاسکتی ہے اور ویدر میں ہوائی خدمات کو محفوظ طریقے سے برقرار رکھا جاسکتا ہے جس میں 1939 میں مڈا تجارتی اڑان ناقابل تصور ہوگی۔ جدید ہوا کا دور شروع ہوچکا تھا۔ تاہم ، ہم نے جنگ کے بعد کے بعد کے بعد سے بڑی ترقی دیکھی ہے اور مزید بڑی پیشرفتیں ابھی زیادہ نہیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جیٹ انجن نے فوجی طیاروں کی رفتار کو بے حد واضح کردیا تھا۔ جیٹ انجن کو سی آئی ایل کے ہوائی جہاز پر لاگو کرنے سے پہلے صرف وقت کا معاملہ تھا۔ اس کے بعد انجینئرنگ کے سنگین مسائل ہیں۔ انیرلنر پر 800 کلومیٹر کے فاصلے پر سفر کرنے والے مکینیکل دباؤ اتنے ہی اچھ .ے ہیں جتنے کہ ایک گھنٹہ 480 کلومیٹر پر سفر کرنے والے افراد۔ نیکسٹ گریٹ کا مسئلہ ہوائی جہازوں کو ڈیزائن کرنا ہے جو آواز کی بدگمانیوں کا سفر کرے گا - تقریبا 11 1160 کلومیٹر فی گھنٹہ۔ جب انیروپلین آواز کی رفتار سے اڑتا ہے تو ، یہ اپنی پرواز کے ذریعہ قائم گنجان کی ہوا کی لہروں سے ٹکرا جاتا ہے۔ بہت بڑے تناؤ اس کے ڈھانچے پر مسلط کردیئے گئے ہیں۔ فوجی ہوائی جہاز کے ڈیزائنرز نے 'دی ساؤنڈ بیریئر' کے اس مسئلے کو حل کیا ہے۔ جدید لڑاکا میں 2400 کلومیٹریسین گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار ہے اور تجرباتی طور پر طیارے میں 4800 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ گئی ہے۔ ایک بڑا ہوائی جہاز بنانے کے لئے جو اس طرح کی رفتار حاصل کرنے کے ل enough طاقتور اور مضبوط ہو تو اس طرح کی رفتار کو حاصل کرنے کے لئے بھی کافی حد تک ایکون اومیکل کو حاصل کرنے کے لئے کافی حد تک ایکون اومیکل کو لے جانے کے لئے کافی حد تک کام کرنے کے لئے کام کیا جائے گا۔ لیکن دنیا کی ہوائی جہاز کی صنعتوں کو بلا شبہ ضروری مہارت اور غیر حقیقی جیسا کہ اب لگتا ہے ، وہاں لگتا ہے اس میں تھوڑا سا شک ہے کہ اب سے بیس سال سے بھی کم ، شاید دس ، مسافروں کو ایک گھنٹہ 3200 کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچنے والی رفتار سے فائدہ اٹھائیں گے۔

Popular Posts